تعارف – خون کی کمی کیا ہے اور یہ کیوں اہم ہے؟
خون کی کمی، جسے طبی اصطلاح میں "انیمیا" (Anemia) کہا جاتا ہے، ایک ایسی حالت ہے جس میں خون میں موجود ہیموگلوبن یا سرخ خون کے خلیات کی مقدار معمول سے کم ہو جاتی ہے۔ ہیموگلوبن وہ پروٹین ہے جو آکسیجن کو پھیپھڑوں سے جسم کے دیگر حصوں تک پہنچاتا ہے۔ جب ہیموگلوبن کی سطح کم ہو جائے تو جسم کے خلیات کو آکسیجن پوری مقدار میں نہیں مل پاتی، جس کے باعث تھکن، کمزوری، اور دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔ خون کی کمی دنیا بھر میں ایک عام مسئلہ ہے، خصوصاً خواتین، بچوں، حاملہ خواتین اور کم غذائیت والے افراد میں اس کی شرح زیادہ دیکھی جاتی ہے۔
خون کی کمی کو سنجیدگی سے لینا اس لیے ضروری ہے کہ اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ جسمانی اعضاء، دل، دماغ اور مجموعی صحت کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس مضمون میں ہم خون کی کمی کی مختلف اقسام، ان کی علامات، ممکنہ اسباب، تشخیص کے طریقے اور مؤثر علاج کے بارے میں تفصیل سے جانیں گے تاکہ آپ اپنی یا اپنے پیاروں کی صحت کا بہتر خیال رکھ سکیں۔
خون کی کمی کی عام علامات
خون کی کمی کی علامات جسم میں آکسیجن کی کمی کے نتیجے میں ظاہر ہوتی ہیں۔ ان علامات کا بروقت ادراک اور سمجھ بوجھ مریض کو فوری طبی مدد حاصل کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ اکثر افراد ان علامات کو روزمرہ کی تھکن یا سستی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، جو کہ ایک خطرناک رویہ ہو سکتا ہے۔
تھکن اور کمزوری کا مسلسل احساس
خون کی کمی کی سب سے عام علامت تھکن اور جسمانی کمزوری ہوتی ہے۔ چونکہ خون میں ہیموگلوبن کم ہوتا ہے، جسم کے خلیات کو آکسیجن پوری مقدار میں نہیں ملتی، جس سے توانائی کی سطح گر جاتی ہے۔ مریض کو چھوٹے چھوٹے کاموں کے بعد بھی تھکن محسوس ہوتی ہے، جیسے سیڑھیاں چڑھنا، چلنا یا روزمرہ کے معمولات انجام دینا۔
جلد کی پیلاہٹ اور بے رونقی
جب خون کی کمی شدید ہو جائے تو جلد کی رنگت پیلی پڑ جاتی ہے، خصوصاً چہرہ، ہتھیلیاں اور آنکھوں کے نچلے حصے میں پیلاہٹ نمایاں ہو جاتی ہے۔ یہ پیلاہٹ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ خون کے سرخ خلیات کی مقدار میں واضح کمی آ چکی ہے۔ بعض اوقات مریض کو چہرے پر بے رونقی اور مردہ پن محسوس ہوتا ہے۔
سانس پھولنا اور دل کی دھڑکن میں تیزی
خون کی کمی کی صورت میں دل آکسیجن کی کمی کو پورا کرنے کے لیے زیادہ محنت کرتا ہے، جس کے نتیجے میں دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ مریض کو تھوڑا سا چلنے پھرنے یا سیڑھیاں چڑھنے کے دوران سانس پھولنے لگتا ہے۔ یہ علامت خاص طور پر آئرن کی کمی سے ہونے والی انیمیا میں زیادہ پائی جاتی ہے۔
ہاتھوں اور پیروں کا ٹھنڈا ہونا
خون کی ناکافی مقدار کی وجہ سے جسم کے دور دراز حصوں تک آکسیجن کم پہنچتی ہے، جس سے ہاتھ اور پاؤں ٹھنڈے محسوس ہوتے ہیں۔ بعض مریضوں کو ہاتھ پاؤں سن ہونے، جھنجھناہٹ یا کمزوری کی شکایت بھی ہوتی ہے۔ یہ علامت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خون کی روانی مکمل طور پر مؤثر نہیں رہی۔
خون کی کمی کی اقسام
خون کی کمی مختلف اقسام میں پائی جاتی ہے اور ہر قسم کی اپنی مخصوص علامات، وجوہات اور علاج کے طریقے ہوتے ہیں۔ ان اقسام کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ ہر مریض کو اس کی نوعیت کے مطابق علاج فراہم کیا جا سکے۔ ذیل میں خون کی کمی کی چند عام اور خاص اقسام بیان کی گئی ہیں:
آئرن کی کمی سے پیدا ہونے والی انیمیا
یہ خون کی کمی کی سب سے عام قسم ہے جو آئرن کی کمی کے باعث پیدا ہوتی ہے۔ آئرن وہ معدنیات ہے جو ہیموگلوبن بنانے کے لیے ضروری ہے۔ جب جسم میں آئرن کی مقدار کم ہو جاتی ہے تو ہیموگلوبن کی پیداوار متاثر ہوتی ہے اور اس سے خون کی کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ کمی عام طور پر حاملہ خواتین، حیض کی زیادتی، یا خراب غذا لینے والے افراد میں دیکھی جاتی ہے۔ اس قسم کی انیمیا میں مریض کو تھکن، کمزوری، سردی لگنا، اور ناخنوں کا ٹوٹنا جیسی علامات محسوس ہوتی ہیں۔
فولک ایسڈ اور وٹامن B12 کی کمی
فولک ایسڈ اور وٹامن B12 دونوں ہی سرخ خون کے خلیات کی تیاری کے لیے نہایت اہم ہیں۔ جب ان میں سے کسی کی کمی ہو جائے تو "میگالوبلاسٹک انیمیا" پیدا ہوتی ہے، جس میں خون کے خلیات بڑے اور غیر مؤثر ہو جاتے ہیں۔ وٹامن B12 کی کمی خاص طور پر اعصابی نظام کو بھی متاثر کرتی ہے اور مریض کو یادداشت کی کمزوری، جھنجھناہٹ، اور توازن برقرار رکھنے میں دقت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ فولک ایسڈ کی کمی حاملہ خواتین کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے کیونکہ یہ جنین کی نشوونما کو متاثر کرتی ہے۔
تھیلیسیمیا اور سِکل سیل انیمیا
یہ دونوں جینیاتی بیماریاں ہیں جو خاندان سے موروثی طور پر منتقل ہوتی ہیں۔ تھیلیسیمیا میں ہیموگلوبن کی ساخت متاثر ہوتی ہے، جس کی وجہ سے سرخ خلیات جلدی ختم ہو جاتے ہیں۔ سِکل سیل انیمیا میں خون کے خلیات "ہلالی" یا "سیکل" کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، جو خون کی نالیوں میں روانی کو متاثر کرتے ہیں اور درد، سوجن، اور عضو کی خرابی کا باعث بنتے ہیں۔ ان اقسام کا علاج عام انیمیا سے مختلف ہوتا ہے اور لمبے عرصے پر محیط ہوتا ہے، جس میں مخصوص ادویات، خون کی منتقلی، اور بعض کیسز میں بون میرو ٹرانسپلانٹ شامل ہوتا ہے۔
ہیمولائٹک انیمیا اور دیگر نایاب اقسام
ہیمولائٹک انیمیا اس وقت ہوتی ہے جب سرخ خون کے خلیات معمول سے پہلے ٹوٹنے لگتے ہیں۔ یہ حالت بعض ادویات، آٹو امیون بیماریوں، یا جینیاتی خرابیوں کی وجہ سے پیدا ہو سکتی ہے۔ اس میں مریض کو جلد پیلی ہونے، پیشاب کا رنگ گہرا ہونے، اور تیز بخار جیسی علامات محسوس ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک نایاب قسم "اپلاسٹک انیمیا" بھی ہے جس میں بون میرو سرخ خون کے خلیات بنانا بند کر دیتا ہے، اور یہ حالت جان لیوا بھی ہو سکتی ہے اگر بروقت علاج نہ ہو۔
خون کی کمی کی ممکنہ وجوہات
خون کی کمی کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں، جو فرد کی عمر، جنس، رہن سہن، اور صحت کے مجموعی حالات پر منحصر ہوتی ہیں۔ بعض وجوہات وقتی ہوتی ہیں، جبکہ کچھ دائمی بیماریاں طویل المدتی خون کی کمی کا باعث بنتی ہیں۔ ذیل میں چند بڑی وجوہات کا ذکر کیا گیا ہے:
غذائی کمی اور ناقص خوراک
خون کی کمی کی سب سے عام وجہ متوازن غذا کا فقدان ہے۔ خاص طور پر آئرن، فولک ایسڈ، وٹامن B12، اور پروٹین کی کمی سرخ خون کے خلیات کی تیاری کو متاثر کرتی ہے۔ گوشت، سبزی، دالیں، انڈے، اور دودھ جیسی غذاؤں کا کم استعمال یا یک طرفہ خوراک لینے سے ان غذائی اجزاء کی کمی ہو سکتی ہے۔ اکثر نوجوان لڑکیاں، حاملہ خواتین، اور بوڑھے افراد غذائی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔
اندرونی خون بہنا یا حیض کی زیادتی
جسم میں خون کی کمی اس وقت بھی ہو سکتی ہے جب کسی بیماری کی وجہ سے خون کا اخراج مسلسل جاری ہو، جیسے السر، آنتوں کے زخم، یا پائلز (بواسیر)۔ اسی طرح خواتین میں حیض کی زیادتی یا بچے کی پیدائش کے دوران زیادہ خون بہنے سے بھی شدید انیمیا ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات یہ خون بہنا پوشیدہ ہوتا ہے، اور مریض کو اس کا اندازہ نہیں ہو پاتا۔
جینیاتی بیماریاں اور موروثی مسائل
تھیلیسیمیا، سِکل سیل انیمیا، اور کچھ دیگر خون کی بیماریاں خاندانوں میں نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں۔ ایسے افراد میں خون کے خلیات کی تیاری میں بنیادی خرابی ہوتی ہے جسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا، البتہ اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ان بیماریوں میں وقت پر تشخیص، خصوصی نگہداشت، اور باقاعدہ علاج نہایت ضروری ہے۔
دیگر بیماریوں یا ادویات کا اثر
بعض دائمی بیماریاں جیسے گردوں کی خرابی، کینسر، HIV، یا آٹو امیون ڈس آرڈرز بھی خون کی کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اسی طرح کچھ دوائیں جیسے کیموتھراپی، اینٹی بایوٹک، یا اینٹی مالیرئیل بھی بون میرو یا خون کے خلیات پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔ ایسے مریضوں کو وقتاً فوقتاً خون کی جانچ اور مخصوص علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
خون کی کمی کی تشخیص کیسے کی جاتی ہے؟
خون کی کمی کی درست تشخیص مریض کے مؤثر علاج کے لیے نہایت ضروری ہے۔ چونکہ انیمیا مختلف وجوہات اور اقسام کی بنیاد پر ظاہر ہو سکتا ہے، اس لیے اس کی تشخیص کا عمل بھی مرحلہ وار اور مکمل جانچ پر مبنی ہوتا ہے۔ تشخیص میں مریض کی طبی تاریخ، جسمانی معائنہ، اور مختلف لیبارٹری ٹیسٹ شامل ہوتے ہیں جو بیماری کی نوعیت اور شدت کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
مکمل خون کا تجزیہ (CBC)
خون کی کمی کی ابتدائی اور سب سے اہم جانچ مکمل خون کا تجزیہ یا CBC (Complete Blood Count) ہوتا ہے۔ اس ٹیسٹ کے ذریعے خون میں ہیموگلوبن، ہیماتوکریٹ، سرخ اور سفید خون کے خلیات، اور پلیٹلیٹس کی مقدار کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ CBC رپورٹ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خون میں سرخ خلیات کی کمی ہے یا نہیں، اور اگر ہے تو وہ کس حد تک ہے۔ اس کے علاوہ RBC کا سائز اور رنگ بھی دیکھا جاتا ہے، جس سے خون کی کمی کی قسم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
فیرٹین، آئرن، B12، اور فولک ایسڈ کے ٹیسٹ
اگر CBC سے خون کی کمی کی تصدیق ہو جائے، تو اگلا مرحلہ مخصوص غذائی اجزاء کی جانچ کا ہوتا ہے۔ فیرٹین ٹیسٹ خون میں آئرن کی محفوظ مقدار کی جانچ کرتا ہے، جبکہ سیرم آئرن ٹیسٹ خون میں دستیاب آئرن کی مقدار بتاتا ہے۔ اسی طرح وٹامن B12 اور فولک ایسڈ کے ٹیسٹ سے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ آیا مریض ان غذائی اجزاء کی کمی کا شکار تو نہیں۔ ان ٹیسٹوں کے ذریعے انیمیا کی اصل وجہ کا تعین ممکن ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر علاج تجویز کیا جاتا ہے۔
بون میرو بایوپسی (اگر ضروری ہو)
اگر عام ٹیسٹوں سے انیمیا کی وجہ معلوم نہ ہو یا ڈاکٹر کو خون کی پیداوار کے نظام میں خرابی کا شک ہو، تو بون میرو بایوپسی تجویز کی جاتی ہے۔ یہ ٹیسٹ ہڈی کے گودے (bone marrow) سے ایک چھوٹا سا نمونہ لے کر کیا جاتا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ خون کے خلیات کی تیاری میں کوئی خرابی تو نہیں۔ یہ طریقہ کار خاص طور پر اپلاسٹک انیمیا، لیوکیمیا، یا بون میرو سے متعلق دیگر بیماریوں کی تشخیص کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
دیگر متعلقہ معائنے
بعض اوقات مریض کو آنتوں کا اینڈوسکوپی، الٹراساؤنڈ، کولونسکوپی، یا پیشاب کے ٹیسٹ بھی تجویز کیے جاتے ہیں، خاص طور پر اگر ڈاکٹر کو شک ہو کہ خون کی کمی کسی اندرونی خون بہنے یا دیگر دائمی بیماری کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ جینیاتی معائنے بھی کیے جا سکتے ہیں اگر مریض کو موروثی انیمیا جیسے تھیلیسیمیا یا سِکل سیل کا شک ہو۔
خون کی کمی کا علاج اور روک تھام
خون کی کمی کا علاج اس کی نوعیت، شدت، اور بنیادی وجہ پر مبنی ہوتا ہے۔ علاج کا مقصد نہ صرف ہیموگلوبن کی سطح کو بحال کرنا ہوتا ہے بلکہ اس کی اصل وجہ کو بھی ختم کرنا ہوتا ہے تاکہ مسئلہ دوبارہ پیدا نہ ہو۔ علاج کے مختلف مراحل میں دوائیاں، غذائی تبدیلیاں، اور مخصوص طبی اقدامات شامل ہوتے ہیں۔
غذائی سپلیمنٹس اور متوازن خوراک
اگر خون کی کمی غذائی کمی کی وجہ سے ہو تو سب سے پہلا اور مؤثر طریقہ آئرن، فولک ایسڈ، اور وٹامن B12 کے سپلیمنٹس کا استعمال ہے۔ آئرن کی گولیاں یا سیرپ عام طور پر روزانہ کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں، جنہیں خالی پیٹ یا وٹامن C کے ساتھ لینا زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ فولک ایسڈ اور وٹامن B12 کی گولیاں یا انجیکشنز بھی تجویز کیے جا سکتے ہیں۔
ساتھ ہی متوازن غذا کو روزمرہ زندگی میں شامل کرنا لازمی ہے۔ گوشت، کلیجی، مچھلی، انڈے، دالیں، پالک، سیب، چقندر، اور خشک میوہ جات آئرن سے بھرپور ہوتے ہیں اور خون بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ کھانے کے ساتھ چائے یا کافی سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ یہ آئرن کے جذب کو متاثر کرتی ہیں۔
دوائیوں کے ذریعے علاج
کچھ خاص قسم کی انیمیا جیسے آٹو امیون ہیمولائٹک انیمیا یا اپلاسٹک انیمیا میں سٹیرائیڈز، امیونوسپریسیو ادویات، یا دیگر مخصوص دوائیں تجویز کی جاتی ہیں۔ ایسے مریضوں کو ڈاکٹر کی نگرانی میں باقاعدہ دوائیں لینا ضروری ہوتا ہے تاکہ خلیات کی تباہی روکی جا سکے اور بون میرو کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکے۔
خون کی منتقلی اور بون میرو تھراپی
اگر خون کی کمی شدید ہو اور ہیموگلوبن کی سطح بہت کم ہو جائے تو فوری طور پر خون کی منتقلی (blood transfusion) کی جاتی ہے تاکہ مریض کو وقتی ریلیف حاصل ہو۔ تھیلیسیمیا اور سِکل سیل انیمیا کے مریضوں کو اکثر باقاعدہ خون کی منتقلی کی ضرورت پڑتی ہے۔ بعض پیچیدہ کیسز میں بون میرو ٹرانسپلانٹ بھی تجویز کیا جاتا ہے، خاص طور پر جب خون بنانے کا عمل مکمل طور پر رک جائے۔
طرز زندگی میں بہتری اور پرہیز
خون کی کمی سے بچاؤ کے لیے متوازن غذا، جسمانی سرگرمی، مکمل نیند، اور ذہنی سکون ضروری ہے۔ حاملہ خواتین کو دوران حمل فولک ایسڈ اور آئرن کی سپلیمنٹس لازماً لینی چاہیے۔ بچوں، خواتین اور بوڑھوں کو وقتاً فوقتاً خون کے ٹیسٹ کروانے چاہییں تاکہ کسی بھی کمی کو وقت پر شناخت کیا جا سکے۔ تمباکو نوشی اور شراب نوشی جیسے مضر عادات سے پرہیز بھی خون کی صحت میں بہتری لانے میں مددگار ہوتا ہے۔
نتیجہ
خون کی کمی ایک عام مگر سنگین طبی حالت ہے جو اگر بروقت نہ پہچانی جائے اور علاج نہ کیا جائے تو جسم کے مختلف نظاموں کو متاثر کر سکتی ہے۔ یہ نہ صرف جسمانی کمزوری اور تھکن کا باعث بنتی ہے بلکہ دل، دماغ، اور دیگر اعضاء کی کارکردگی کو بھی بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے طرزِ زندگی اور خوراک میں ایسی تبدیلیاں لائیں جو خون کی پیداوار کو بہتر بنائیں۔ متوازن غذا، وٹامنز اور منرلز کی مقدار کا خیال، جسمانی سرگرمی، اور وقتاً فوقتاً طبی معائنہ انیمیا سے بچاؤ میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر علامات ظاہر ہوں تو تاخیر کیے بغیر ڈاکٹر سے رجوع کریں تاکہ آپ کی صحت اور زندگی محفوظ رہے۔
براہ کرم انسٹا کیئر کے ذریعے لاہور، کراچی، اسلام آباد اور پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں بہترین جنرل فزیشن کے ساتھ ملاقات کا وقت بُک کریں، یا اپنی بیماری کے لیے تصدیق شدہ ڈاکٹر تلاش کرنے کے لیے ہماری ہیلپ لائن 03171777509 پر کال کریں۔