یرقان کیا ہے؟ ایک تعارف

یرقان ایک عام لیکن سنگین علامت ہے جو اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب جسم میں بیلی روبن (bilirubin) کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ بیلی روبن ایک پیلا رنگت رکھنے والا مادہ ہے جو اس وقت بنتا ہے جب جسم میں پرانے یا ناکارہ خون کے خلیے ٹوٹتے ہیں۔ عام طور پر جگر اس مادے کو صاف کرتا ہے اور جسم سے خارج کر دیتا ہے، لیکن جب جگر صحیح طریقے سے کام نہ کرے یا بیلی روبن کی مقدار حد سے بڑھ جائے تو وہ خون میں جمع ہو جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ جلد، آنکھوں کی سفید جھلی، اور ناخنوں کی پیلاہٹ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جسے ہم یرقان کہتے ہیں۔ یرقان کوئی بیماری نہیں بلکہ مختلف بیماریوں کی ایک علامت ہے، جیسے ہیپاٹائٹس، جگر کی سوزش، یا پتہ کی نالیوں میں رکاوٹ۔ اگرچہ بعض اوقات یرقان خود ہی ٹھیک ہو جاتا ہے، مگر اکثر اس کا مناسب علاج اور تشخیص نہ ہونے کی صورت میں یہ جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اس کی علامات کو سنجیدگی سے لینا اور بروقت علاج کروانا انتہائی ضروری ہے۔

یرقان کی بنیادی علامات

یرقان کی علامات عام طور پر جلدی ظاہر ہو جاتی ہیں اور ان کی شدت مریض کی صحت کی حالت اور وجہ پر منحصر ہوتی ہے۔ ان علامات کو پہچاننا بہت ضروری ہے تاکہ بروقت طبی مدد حاصل کی جا سکے۔

جلد اور آنکھوں کی پیلاہٹ

یرقان کی سب سے نمایاں علامت جلد اور آنکھوں کی سفید جھلی میں پیلاہٹ کا ظاہر ہونا ہے۔ یہ پیلاہٹ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب خون میں بیلی روبن کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے۔ بیلی روبن ایک زرد رنگ کا مادہ ہوتا ہے جو خون کے لال خلیات کے ٹوٹنے سے پیدا ہوتا ہے۔ جب جگر اس کو مناسب طریقے سے خارج نہیں کر پاتا تو یہ جسم کے مختلف حصوں میں جمع ہو جاتا ہے، خاص طور پر جلد اور آنکھوں میں۔ بعض مریضوں میں یہ پیلاہٹ بہت ہلکی ہو سکتی ہے اور کچھ میں نمایاں طور پر واضح ہوتی ہے۔ یہ علامت دن کی روشنی میں زیادہ واضح نظر آتی ہے، خاص طور پر جب آنکھوں کو غور سے دیکھا جائے۔ اگر کسی فرد میں اچانک جلد یا آنکھوں کی رنگت میں تبدیلی نظر آئے، تو یہ ایک سنگین طبی علامت ہو سکتی ہے اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

پیشاب کا گہرا رنگ

یرقان کے مریضوں میں پیشاب کا رنگ عام طور پر بہت گہرا، یعنی چائے یا کوکاکولا جیسا ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ بیلی روبن کی زیادہ مقدار ہوتی ہے جو جگر سے خارج نہ ہو کر گردوں کے ذریعے پیشاب میں خارج ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جب بیلی روبن کی مقدار بڑھ جاتی ہے، تو یہ گردوں تک پہنچ کر پیشاب کے رنگ کو بدل دیتی ہے۔ یہ علامت اس وقت بھی ظاہر ہو سکتی ہے جب جلد کی پیلاہٹ ابھی واضح نہ ہوئی ہو۔ اگر آپ کا پیشاب اچانک بہت گہرا ہو جائے اور آپ نے پانی کی کمی یا کوئی خاص دوا استعمال نہ کی ہو، تو یہ ایک سنجیدہ علامت ہو سکتی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ علامت اکثر ہیپاٹائٹس یا جگر کی بیماریوں میں سب سے پہلے ظاہر ہوتی ہے، اس لیے فوری تشخیص اور علاج نہایت ضروری ہے۔

پاخانے کا ہلکا رنگ

یرقان کی ایک اور عام علامت پاخانے کے رنگ میں تبدیلی ہے۔ جب جگر میں بیلی روبن کا اخراج متاثر ہوتا ہے، تو یہ آنتوں تک نہیں پہنچ پاتا جس کی وجہ سے پاخانے کا رنگ معمول کے بھورے یا سیاہی مائل ہونے کے بجائے ہلکا، زرد یا خاکی ہو جاتا ہے۔ یہ تبدیلی جگر یا پتہ کی نالیوں میں رکاوٹ کی نشاندہی کر سکتی ہے۔ کبھی کبھار مریضوں کو پاخانے میں چکنائی یا بدبو کا بھی سامنا ہو سکتا ہے، جو کہ جگر کی کمزوری یا صفراوی نظام کے مسائل کی علامت ہو سکتی ہے۔ اگر کسی کو ایک سے زائد بار ہلکے رنگ کا پاخانہ آئے اور اس کے ساتھ پیلاہٹ یا گہرے پیشاب کی شکایت بھی ہو، تو یہ یرقان کی واضح علامت ہے اور فوری طبی معائنہ ضروری ہو جاتا ہے۔

تھکن اور کمزوری

یرقان کی علامات میں تھکن اور جسمانی کمزوری کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ علامت عمومی طور پر ہر مریض کو متاثر کرتی ہے، کیونکہ جب جگر صحیح طریقے سے کام نہیں کرتا تو جسم کی توانائی کی سطح بھی متاثر ہوتی ہے۔ جگر جسم کے نظام کو چلانے میں ایک مرکزی کردار ادا کرتا ہے، اور جب اس کا کام رک جاتا ہے یا کم ہو جاتا ہے تو جسمانی تھکن، بھوک میں کمی، نیند کا خراب ہونا، اور ذہنی الجھن جیسی علامات سامنے آتی ہیں۔ اکثر مریض خود کو سست، نڈھال اور بے جان محسوس کرتے ہیں، جیسے توانائی ختم ہو گئی ہو۔ تھکن کی شدت اتنی زیادہ ہو سکتی ہے کہ روزمرہ کے معمولات بھی متاثر ہو جائیں۔ اگر یہ علامت دیگر علامات کے ساتھ ظاہر ہو تو یہ خطرے کی گھنٹی ہو سکتی ہے۔

یرقان کی اقسام

یرقان ایک ہی بیماری نہیں بلکہ اس کی مختلف اقسام ہوتی ہیں، جو مختلف وجوہات کی بنیاد پر پیدا ہوتی ہیں۔ ہر قسم کا یرقان ایک مخصوص جسمانی نظام یا عمل کے متاثر ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان اقسام کی پہچان درست تشخیص اور مؤثر علاج کے لیے نہایت اہم ہے۔ یرقان کی تین بڑی اقسام درج ذیل ہیں:

قبل از جگر (Pre-Hepatic) یرقان

یہ قسم اس وقت ہوتی ہے جب جسم میں بیلی روبن کی پیداوار حد سے زیادہ ہو جائے، لیکن جگر اسے ٹھیک سے عمل میں نہ لا سکے۔ اس کی سب سے عام وجہ خون کے سرخ خلیات کا غیر معمولی طور پر زیادہ ٹوٹنا (Hemolysis) ہے۔ اس صورت میں جگر پر اتنا بوجھ پڑتا ہے کہ وہ اضافی بیلی روبن کو صاف نہیں کر پاتا۔ یہ حالت بعض بیماریوں، جیسے تھیلیسیمیا، سِکل سیل اینیمیا، یا ملیریا کی صورت میں دیکھی جاتی ہے۔ اس یرقان میں جلد کی پیلاہٹ کے ساتھ ساتھ گہرے رنگ کا پیشاب اور تھکن جیسی علامات نمایاں ہوتی ہیں، جبکہ جگر کی ساخت عام طور پر متاثر نہیں ہوتی۔

جگر سے متعلق (Hepatic) یرقان

یہ قسم اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جگر خود کسی بیماری یا وائرس کی وجہ سے متاثر ہو جائے، جیسے ہیپاٹائٹس A، B، C، جگر کی سوزش، یا الکحل سے ہونے والا نقصان۔ اس قسم میں جگر بیلی روبن کو عمل میں لانے اور خارج کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے، جس کے نتیجے میں بیلی روبن خون میں جمع ہونے لگتا ہے۔ مریض کو شدید تھکن، بھوک کی کمی، متلی، قے، آنکھوں اور جلد کی پیلاہٹ، اور کبھی کبھار پیٹ میں درد جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ قسم سب سے زیادہ پائی جاتی ہے اور بروقت علاج نہ ہونے پر جگر کو مستقل نقصان پہنچا سکتی ہے۔

بعد از جگر (Post-Hepatic) یرقان

یہ یرقان پتہ کی نالیوں یا صفراوی نظام میں رکاوٹ کی وجہ سے ہوتا ہے، جیسے پتھری، رسولی، یا صفراوی نالیوں میں سوزش۔ اس میں بیلی روبن جگر میں تو تیار ہوتا ہے، لیکن آنتوں تک نہیں پہنچ پاتا اور خون میں واپس شامل ہو جاتا ہے۔ اس قسم کے مریضوں میں جلد کی شدید پیلاہٹ، گہرے پیشاب، اور ہلکے پاخانے کے ساتھ ساتھ پیٹ کے دائیں طرف درد اور خارش کی شکایت بھی ہو سکتی ہے۔ اس قسم کا علاج اکثر سرجری یا خاص پروسیجرز سے کیا جاتا ہے۔


یرقان کی وجوہات

یرقان کے پیدا ہونے کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں کچھ معمولی اور عارضی نوعیت کی ہوتی ہیں جبکہ بعض انتہائی خطرناک اور پیچیدہ ہو سکتی ہیں۔ ان وجوہات کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے تاکہ یرقان کی نوعیت اور علاج کا تعین درست طور پر کیا جا سکے۔

وائرل ہیپاٹائٹس

ہیپاٹائٹس ایک وائرل انفیکشن ہے جو جگر کو متاثر کرتا ہے اور یرقان کی سب سے بڑی وجہ بنتا ہے۔ اس کی مختلف اقسام ہیں جیسے ہیپاٹائٹس A، B، C، D، اور E۔ یہ وائرس آلودہ پانی، غیر محفوظ خوراک، خون کی منتقلی، یا جسمانی رابطے سے منتقل ہو سکتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس A اور E عموماً عارضی اور کم خطرناک ہوتے ہیں، جبکہ B اور C زیادہ سنجیدہ اور دائمی ہو سکتے ہیں جو جگر کو مستقل نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ وائرل ہیپاٹائٹس میں یرقان کی علامات کے ساتھ بخار، متلی، تھکن، بھوک کی کمی، اور پیٹ میں درد بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان کا علاج بیماری کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے، جو کبھی صرف آرام اور پرہیز پر مبنی ہوتا ہے اور کبھی اینٹی وائرل ادویات کی ضرورت پڑتی ہے۔

پتہ کی نالی میں رکاوٹ

یرقان کی ایک اور اہم وجہ پتہ کی نالیوں میں رکاوٹ ہے، جو اکثر پتھری، سوزش، یا ٹیومر کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جب صفراوی نالیاں بند ہو جاتی ہیں تو بیلی روبن جگر سے آنتوں تک نہیں پہنچ پاتا اور خون میں جمع ہو جاتا ہے۔ اس قسم کے یرقان میں جلد اور آنکھوں کی شدید پیلاہٹ، گہرے رنگ کا پیشاب، ہلکے رنگ کا پاخانہ، اور شدید پیٹ درد جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ بعض اوقات مریض کو جسم میں شدید خارش بھی محسوس ہوتی ہے۔ اس مسئلے کا حل اکثر سرجری یا اینڈوسکوپک طریقہ علاج ہوتا ہے جس سے رکاوٹ کو دور کیا جاتا ہے۔

جگر کے خلیوں کو نقصان

جگر کے خلیے کسی وجہ سے اگر نقصان کا شکار ہو جائیں، تو وہ بیلی روبن کو پراسیس کرنے کے قابل نہیں رہتے، جس سے یرقان پیدا ہوتا ہے۔ یہ نقصان کئی وجوہات سے ہو سکتا ہے جیسے الکحل کا استعمال، کچھ دوائیں، کیمیکل، یا آٹو امیون بیماریاں۔ اس قسم کے یرقان میں عمومی علامات جیسے پیلاہٹ، تھکن، بھوک کی کمی، اور کمزوری پائی جاتی ہیں، لیکن ان کے ساتھ ساتھ جگر کی ساخت میں بھی تبدیلی آ سکتی ہے جو طویل مدتی نقصان کا باعث بنتی ہے۔ اس قسم کا یرقان اکثر دوا یا پرہیز سے بہتر ہو سکتا ہے، بشرطیکہ بروقت تشخیص کی جائے۔

خون کی خرابی یا بیماری

بعض اوقات یرقان خون کی بیماریوں جیسے سِکل سیل اینیمیا، تھیلیسیمیا، یا ملیریا کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے، جن میں خون کے سرخ خلیات تیزی سے ٹوٹتے ہیں۔ اس عمل کو Hemolysis کہا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں بیلی روبن کی مقدار حد سے زیادہ ہو جاتی ہے اور جگر اسے عمل میں نہیں لا پاتا۔ ان بیماریوں میں یرقان کے ساتھ ساتھ جسمانی کمزوری، بخار، ہڈیوں کا درد، اور سانس کی قلت بھی ہو سکتی ہے۔ اس طرح کے یرقان کا علاج بنیادی بیماری پر توجہ دے کر کیا جاتا ہے، جیسے کہ اینٹی ملیریا ادویات یا خون کی منتقلی۔

یرقان کی تشخیص کیسے کی جاتی ہے؟

یرقان کی درست تشخیص مریض کے مؤثر علاج کے لیے نہایت ضروری ہے۔ چونکہ یرقان ایک علامت ہے، اس لیے اس کی بنیاد پر چھپی ہوئی اصل بیماری کو تلاش کرنا اصل چیلنج ہوتا ہے۔ تشخیص کا عمل مرحلہ وار کیا جاتا ہے تاکہ مکمل اور صحیح تصویر سامنے آئے۔

جسمانی معائنہ اور مریض کی تاریخ

تشخیص کی بنیاد ہمیشہ مریض کی مکمل طبی تاریخ (medical history) اور جسمانی معائنے سے رکھی جاتی ہے۔ ڈاکٹر سب سے پہلے مریض سے علامات کے بارے میں تفصیل سے سوال کرتا ہے، جیسے پیلاہٹ کب سے شروع ہوئی؟ کیا پیشاب یا پاخانے کے رنگ میں تبدیلی آئی؟ کیا بخار یا متلی محسوس ہوئی؟ پھر ڈاکٹر جسمانی معائنہ کرتا ہے، خاص طور پر آنکھوں، جلد، اور پیٹ کے حصے کو دیکھتا ہے تاکہ جگر کے سائز، سوجن یا درد کی علامات تلاش کی جا سکیں۔ مریض کی گزشتہ بیماریوں، دواؤں کے استعمال، اور سفر کی تاریخ بھی نوٹ کی جاتی ہے تاکہ ممکنہ وائرل یا بیکٹیریل انفیکشن کی نشاندہی کی جا سکے۔

خون کے ٹیسٹ

یرقان کی تصدیق کے لیے سب سے اہم تشخیصی طریقہ خون کا تجزیہ ہے۔ خون کے ٹیسٹ میں خاص طور پر بیلی روبن کی سطح، جگر کے انزائمز (ALT، AST، ALP)، خون کے سرخ خلیات کی مقدار، اور ہیموگلوبن کی جانچ کی جاتی ہے۔ اگر بیلی روبن کی سطح نارمل سے زیادہ ہو، تو یہ یرقان کی موجودگی کی واضح دلیل ہے۔ جگر کے انزائمز یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جگر کس حد تک متاثر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ، وائرل ہیپاٹائٹس کی تشخیص کے لیے مخصوص اینٹی باڈیز یا وائرس کے ڈی این اے ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں، تاکہ ہیپاٹائٹس A، B، C وغیرہ کی تصدیق کی جا سکے۔

الٹراساؤنڈ اور امیجنگ ٹیسٹ

اگر خون کے ٹیسٹ سے تشخیص مکمل نہ ہو یا جگر یا پتہ کی نالیوں میں کسی رکاوٹ کا شبہ ہو، تو الٹراساؤنڈ یا دیگر امیجنگ ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ الٹراساؤنڈ سے جگر کا سائز، ساخت، اور صفراوی نالیوں کی حالت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ بعض اوقات سی ٹی اسکین (CT Scan)، ایم آر آئی (MRI)، یا ایم آر سی پی (MRCP) جیسے جدید ٹیسٹ بھی کروائے جاتے ہیں تاکہ پتھری، رسولی، یا دیگر پیچیدگیوں کی مکمل تصویر حاصل کی جا سکے۔ ان امیجنگ ٹیسٹوں کی مدد سے یہ جانچنا ممکن ہوتا ہے کہ آیا یرقان جگر کی خرابی کی وجہ سے ہے یا صفراوی نظام کی کسی رکاوٹ کے سبب۔

بایوپسی (اگر ضروری ہو)

اگر تمام بنیادی ٹیسٹوں کے بعد بھی درست تشخیص نہ ہو سکے یا جگر کے کینسر یا دائمی سوزش کا شک ہو، تو ڈاکٹر جگر کی بایوپسی تجویز کر سکتا ہے۔ بایوپسی ایک مائیکروسکوپک تجزیہ ہوتا ہے جس میں جگر سے ایک ننھا سا ٹکڑا نکال کر اس کی خلیاتی ساخت کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ کار تھوڑا سا انویسیو ہوتا ہے لیکن انتہائی مؤثر ہوتا ہے، خاص طور پر ان کیسز میں جہاں مرض کی نوعیت واضح نہ ہو۔ بایوپسی سے جگر کے کینسر، سروسس، یا آٹو امیون ہیپاٹائٹس کی تشخیص ممکن ہوتی ہے۔

یرقان کا علاج اور دیکھ بھال

یرقان کا علاج اس کی وجہ پر منحصر ہوتا ہے۔ چونکہ یہ ایک علامت ہے نہ کہ خود بیماری، اس لیے اس کا اصل علاج اصل بیماری کا علاج کرنا ہوتا ہے۔ علاج کے مختلف طریقے موجود ہیں جن میں دوا، غذا، سرجری، اور گھریلو تدابیر شامل ہیں۔

دوا کے ذریعے علاج

اگر یرقان کی وجہ وائرل انفیکشن ہو جیسے ہیپاٹائٹس A یا E، تو عمومی طور پر کوئی خاص دوا کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ آرام، ہلکی خوراک، اور پانی کی وافر مقدار کافی ہوتی ہے۔ مگر اگر ہیپاٹائٹس B یا C جیسے دائمی وائرل انفیکشن ہوں تو اینٹی وائرل دوائیں دی جاتی ہیں جو وائرس کی بڑھوتری کو روکتی ہیں۔ اسی طرح اگر یرقان بیکٹیریا کی وجہ سے ہو تو اینٹی بایوٹک دی جاتی ہیں۔ جگر کو نقصان سے بچانے کے لیے بعض مریضوں کو ہیپاٹوپروٹیکٹو ادویات دی جاتی ہیں۔ اگر خون کی خرابی کی وجہ سے یرقان ہو تو اس کے لیے مخصوص دوائیں یا خون کی منتقلی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

سرجری یا پروسیجرز

اگر یرقان صفراوی نالیوں میں رکاوٹ، پتھری، یا ٹیومر کی وجہ سے ہو تو سرجری یا اینڈوسکوپک پروسیجرز کیے جاتے ہیں۔ ایک عام طریقہ ERCP (Endoscopic Retrograde Cholangiopancreatography) ہے، جس کے ذریعے پتہ کی نالیوں سے پتھری یا رکاوٹ دور کی جاتی ہے۔ بعض اوقات ٹیومر کو نکالنے کے لیے کھلی سرجری کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ یرقان کے شدید کیسز میں، خاص طور پر جب جگر مکمل طور پر ناکام ہو جائے، جگر کی پیوندکاری (Liver Transplant) آخری حل ہو سکتی ہے۔

خوراک اور طرز زندگی میں تبدیلیاں

یرقان میں خوراک اور طرز زندگی کی تبدیلی نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مریض کو چکنی، بھاری، تلی ہوئی، اور بازاری خوراک سے پرہیز کرنا چاہیے۔ تازہ پھل، سبزیاں، ہلکی دالیں، دہی، اور نارمل پانی کی زیادہ مقدار لینا مفید ہے۔ الکحل، سگریٹ، اور کیفین کے استعمال سے مکمل گریز ضروری ہے۔ مریض کو مکمل آرام دینا چاہیے اور جسمانی مشقت سے دور رکھنا چاہیے تاکہ جگر کو بحال ہونے کا وقت مل سکے۔ نیند پوری کرنا اور ذہنی دباؤ سے بچنا بھی علاج کا حصہ ہے۔

گھریلو علاج اور احتیاطی تدابیر

کچھ قدرتی چیزیں جیسے ہلدی، لیموں پانی، اور گنے کا رس یرقان کے دوران فائدہ مند سمجھے جاتے ہیں کیونکہ یہ جگر کو صاف کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ مگر ان کا استعمال صرف تب کریں جب ڈاکٹر اجازت دے۔ کسی بھی گھریلو علاج سے پہلے مکمل تشخیص اور طبی مشورہ لینا ضروری ہے تاکہ مزید پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔ ساتھ ہی، صفائی ستھرائی، پانی ابال کر پینا، اور ویکسین لگوانا بھی یرقان سے بچاؤ کے اہم طریقے ہیں۔

نتیجہ

یرقان ایک ایسی علامت ہے جو جگر یا خون سے متعلق مختلف بیماریوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ کسی ایک مرض کا نام نہیں بلکہ ایک طبی علامت ہے جو ہمیں جسم کے اندر چھپی کسی سنجیدہ خرابی کے بارے میں خبردار کرتی ہے۔ یرقان کی علامات جیسے جلد اور آنکھوں کی پیلاہٹ، گہرے رنگ کا پیشاب، ہلکے پاخانے، اور جسمانی تھکن، سب ایک سنجیدہ طبی مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ اس لیے ان علامات کو معمولی نہ سمجھا جائے۔

اس مضمون میں ہم نے یرقان کی اقسام، اسباب، تشخیص کے طریقے، اور علاج کی تمام تفصیلات بیان کی ہیں تاکہ آپ کو مکمل آگاہی حاصل ہو سکے۔ یرقان کی بروقت تشخیص اور مناسب علاج نہ صرف مریض کی زندگی بچا سکتا ہے بلکہ مستقبل میں ہونے والی پیچیدگیوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ چاہے مسئلہ وائرل ہو، جگر کی خرابی ہو یا صفراوی نالیوں کی رکاوٹ، ہر صورت میں فوری ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہے۔

براہ کرم انسٹا کیئر کے ذریعے لاہور، کراچی، اسلام آباد اور پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں بہترین ماہر امراض معدہ و جگر کے ساتھ ملاقات کا وقت بُک کریں، یا اپنی بیماری کے لیے تصدیق شدہ ڈاکٹر تلاش کرنے کے لیے ہماری ہیلپ لائن 03171777509 پر کال کریں۔