دمہ کی اقسام – ہر مریض کی حالت مختلف کیوں ہوتی ہے؟
دمہ ایک جیسا نہیں ہوتا، بلکہ مختلف اقسام میں ظاہر ہوتا ہے، جس کی نوعیت مریض کی عمر، ماحول، اور جسمانی حالت پر منحصر ہوتی ہے۔ درج ذیل دمہ کی نمایاں اقسام ہیں جنہیں سمجھنا مؤثر علاج کے لیے نہایت ضروری ہے:
1. الرجی سے پیدا ہونے والا دمہ (Allergic Asthma)
یہ سب سے عام قسم ہے، جو گرد و غبار، پولن، پالتو جانوروں کے بال، یا دیگر الرجی پیدا کرنے والے عناصر سے متحرک ہوتی ہے۔ ایسے مریضوں کو ہر موسم کی تبدیلی یا الرجی والے ماحول میں شدید علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
2. ورزش سے وابستہ دمہ (Exercise-Induced Asthma)
بعض افراد میں جسمانی سرگرمی، خاص طور پر دوڑنے یا مشقت والے کھیلوں کے دوران سانس پھولنے، کھانسی یا گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ یہ حالت اکثر نوجوانوں اور کھلاڑیوں میں دیکھی جاتی ہے۔
3. نائٹ ٹائم دمہ (Nocturnal Asthma)
اس قسم میں علامات رات کے وقت یا نیند کے دوران شدت اختیار کرتی ہیں۔ مریض کو نیند میں خلل، کھانسی، اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔
4. پیشہ ورانہ دمہ (Occupational Asthma)
ایسے افراد جو کیمیکل، دھواں، یا گردوغبار والے ماحول میں کام کرتے ہیں، ان میں یہ دمہ پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ حالت اکثر مزدور، پینٹ ورکرز، یا کسانوں میں پائی جاتی ہے۔
5. غیر الرجی دمہ (Non-Allergic Asthma)
یہ قسم انفیکشن، دباؤ، دھوئیں، یا سخت خوشبو جیسے غیر الرجی عناصر سے متحرک ہوتی ہے۔ اس میں الرجی کی کوئی خاص تاریخ نہیں ہوتی مگر علامات ویسی ہی شدید ہو سکتی ہیں۔
دمہ کے اسباب اور محرکات – کن عوامل سے بچنا ضروری ہے؟
دمہ کی بنیادی وجہ پھیپھڑوں کی ہوا کی نالیوں میں سوزش اور حساسیت ہے، لیکن یہ سوزش مختلف عوامل سے متحرک ہوتی ہے۔ ان عوامل کو جاننا اور ان سے بچنا دمہ پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے۔
1. ماحولیاتی آلودگی اور دھواں
گاڑیوں کا دھواں، سگریٹ نوشی، صنعتی فضلہ، اور دیگر زہریلے ذرات دمہ کی شدت کو بڑھا سکتے ہیں۔ دمہ کے مریضوں کے لیے صاف ہوا میں رہنا بہت ضروری ہے۔
2. الرجی پیدا کرنے والے عناصر
پولن، دھول، قالین، پالتو جانور، یا کپڑوں میں چھپی الرجی دمہ کے دورے کو متحرک کر سکتی ہے۔ گھر کو صاف رکھنا اور الرجی والے عناصر سے دور رہنا ضروری ہے۔
3. وائرل انفیکشنز
نزلہ، زکام، یا سانس کی دیگر وائرل بیماریاں دمہ کو شدت دے سکتی ہیں، خاص طور پر بچوں میں۔ اس لیے وائرس سے بچاؤ اور مدافعتی نظام کو مضبوط بنانا ضروری ہے۔
4. ذہنی دباؤ اور جذباتی کشیدگی
شدید ذہنی دباؤ یا جذباتی ہیجان بھی دمہ کو متحرک کر سکتا ہے۔ کچھ افراد کو خوشی، غصہ یا رونا بھی دمہ کا دورہ لا سکتا ہے۔
5. سخت ورزش یا محنت
دوڑنے، وزرش کرنے یا سیڑھیاں چڑھنے جیسے کام بھی دمہ کی علامات کو بھڑکا سکتے ہیں، خاص طور پر جب جسم گرم ہو اور سانس تیز ہو جائے۔
دمہ کی تشخیص کیسے کی جاتی ہے؟
دمہ کی درست تشخیص مریض کے مکمل طبی معائنے اور چند مخصوص ٹیسٹوں کے ذریعے کی جاتی ہے، جن کا مقصد سانس کی نالیوں کی فعالیت اور حساسیت کو جانچنا ہوتا ہے۔
1. تفصیلی طبی تاریخ اور علامات کا تجزیہ
ڈاکٹر مریض سے اس کی علامات، ان کی شدت، دورانیہ، اور کون سی چیزیں انہیں بڑھاتی یا کم کرتی ہیں، کے بارے میں سوالات کرتا ہے۔ خاندانی تاریخ بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
2. پلمونری فنکشن ٹیسٹ (Spirometry)
یہ ٹیسٹ سانس لینے اور خارج کرنے کی صلاحیت کو جانچتا ہے۔ دمہ کے مریضوں میں سانس کی نالیوں میں رکاوٹ ہوتی ہے، جو اس ٹیسٹ کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔
3. پیک فلو میٹر ٹیسٹ (Peak Flow Meter)
یہ ایک چھوٹا سا آلہ ہوتا ہے جو گھر پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ اس بات کو ناپتا ہے کہ مریض کتنی طاقت سے سانس باہر نکال سکتا ہے، اور اس سے دمہ کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
4. الرجی ٹیسٹ اور ایکسرے
الرجی ٹیسٹ سے ان عوامل کی نشاندہی ہوتی ہے جو دمہ کو متحرک کرتے ہیں، جبکہ ایکسرے پھیپھڑوں کی حالت کا جائزہ لینے میں مدد دیتا ہے اور دیگر بیماریوں کو خارج کرتا ہے
دمہ کا جدید علاج – سانس لینے کی آزادی کا راستہ
اگرچہ دمہ کا مکمل علاج ممکن نہیں، مگر جدید طبی سہولیات اور ادویات کی بدولت اسے مؤثر انداز میں کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ مریض اگر ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کریں اور دوا کا باقاعدہ استعمال جاری رکھیں تو وہ نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔
1. انہیلرز (Inhalers)
دمہ کے مریضوں کے لیے سب سے عام اور مؤثر طریقہ انہیلرز کا استعمال ہے۔ یہ دو اقسام کے ہوتے ہیں:
- ریسکیو انہیلر (Reliever Inhaler): جو دمہ کا اچانک دورہ آنے پر فوری ریلیف دیتے ہیں۔
- کنٹرولر انہیلر (Preventer Inhaler): روزانہ استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ دمہ کے حملوں سے بچا جا سکے۔
- انہیلرز میں موجود ادویات سانس کی نالیوں کو کھولتی ہیں اور سوجن کو کم کرتی ہیں۔
2. نیبولائزر تھراپی
شدید دمہ کی صورت میں نیبولائزر استعمال کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے دوا کو بھاپ کی شکل میں پھیپھڑوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ یہ خاص طور پر بچوں اور بزرگوں کے لیے مفید ہوتا ہے۔
3. اینٹی الرجی ادویات
اگر دمہ کی وجہ الرجی ہے تو اینٹی ہسٹامینز یا دیگر اینٹی الرجی دوائیں تجویز کی جاتی ہیں، جو جسم میں موجود الرجی عناصر کو کم کرتی ہیں۔
4. کورٹیکوسٹیرائیڈز (Steroids)
یہ دوا سوزش کم کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے، خاص طور پر جب دمہ بار بار متحرک ہو رہا ہو۔ یہ گولیاں یا انہیلر کی صورت میں دی جا سکتی ہیں۔
5. امیونوتھراپی (Allergy Shots)
یہ علاج ان مریضوں کے لیے ہوتا ہے جنہیں مخصوص الرجی عناصر سے دمہ ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ جسم کو ان الرجی عناصر کے خلاف مدافعتی بنانا اس کا مقصد ہوتا ہے۔
احتیاطی تدابیر – دمہ سے محفوظ زندگی کے اصول
دمہ کے مریض اگر چند بنیادی اصولوں پر عمل کریں تو وہ بیماری کے اثرات کو نہ صرف کم کر سکتے ہیں بلکہ زندگی کو بہتر انداز میں گزار سکتے ہیں:
- گرد و غبار سے بچاؤ: روزانہ گھر کی صفائی، قالین، پردے اور بستر کی صفائی لازمی کریں۔
- تمباکو نوشی سے پرہیز: سگریٹ اور دیگر دھواں دار اشیاء دمہ کے لیے زہر قاتل ہیں۔
- ویکسینیشن: فلو اور نمونیا سے بچاؤ کی ویکسین دمہ کے مریضوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔
- ورزش سے قبل وارم اپ کریں: ورزش سے پہلے ہلکی جسمانی سرگرمی دمہ کے دورے سے بچاتی ہے۔
- ذہنی سکون: اسٹریس یا دباؤ دمہ کو بڑھا سکتا ہے، اس لیے پرسکون رہیں، یوگا یا مراقبہ اپنائیں۔
نتیجہ – دمہ کے ساتھ خوشگوار زندگی ممکن ہے
دمہ کوئی ایسی بیماری نہیں جس سے زندگی ختم ہو جائے، لیکن اگر اسے نظر انداز کیا جائے تو یہ بہت پیچیدہ صورت اختیار کر سکتی ہے۔ درست معلومات، بروقت تشخیص، جدید علاج، اور احتیاطی تدابیر کے ذریعے دمہ پر مکمل قابو پایا جا سکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ دمہ کا مریض خود اپنی صحت کی ذمہ داری لے، دوا باقاعدگی سے استعمال کرے، اپنے محرکات کو پہچانے، اور متحرک طرزِ زندگی اپنائے۔ اس طرح وہ زندگی کے ہر لمحے کو آزاد سانسوں کے ساتھ جینے کے قابل بن سکتا ہے۔
براہ کرم انسٹا کیئر کے ذریعے لاہور، کراچی، اسلام آباد اور پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں بہترین پلمونولوجسٹ کے ساتھ ملاقات کا وقت بُک کریں، یا اپنی بیماری کے لیے تصدیق شدہ ڈاکٹر تلاش کرنے کے لیے ہماری ہیلپ لائن 03171777509 پر کال کریں۔