پارکنسن کی بیماری ایک نیورولوجیکل حالت ہے جو دماغ میں موجود مخصوص حصوں میں خرابی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ بیماری انسان کے جسم کی حرکت اور ہم آہنگی کو متاثر کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں حرکت میں سستی، کمپن، اور دیگر مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ پارکنسن کی بیماری عام طور پر عمر بڑھنے کے ساتھ بڑھتی ہے، لیکن یہ کسی بھی عمر کے افراد کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس بلاگ میں ہم پارکنسن کی بیماری کی علامات، وجوہات، تشخیص، اور علاج کے طریقوں پر تفصیل سے بات کریں گے۔
پارکنسن کی بیماری کی علامات
پارکنسن کی بیماری کی علامات ہر مریض میں مختلف ہو سکتی ہیں اور ان کا آغاز آہستہ آہستہ ہوتا ہے۔ شروع میں یہ علامات معمولی سی محسوس ہو سکتی ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ شدت اختیار کر سکتی ہیں۔
1. ہلکے کمپن
پارکنسن کی بیماری میں سب سے عام علامت ہلکا کمپن ہوتا ہے جو عام طور پر ہاتھوں میں نظر آتا ہے، مگر یہ پیر، منہ یا جسم کے دوسرے حصوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ یہ کمپن آرام کی حالت میں بھی ہو سکتا ہے اور اس میں اکثر شدت آتی ہے جب مریض آرام سے بیٹھا ہو۔
2. حرکت میں سُستی
پارکنسن میں حرکت میں سُستی کی شکایت بھی اکثر ہوتی ہے۔ اس میں مریض کو چلنے یا روزمرہ کے کاموں میں دقت کا سامنا ہوتا ہے۔ اس حالت کو "بریڈی کینی" کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے حرکت کی سست روی۔
3. عضلات کا اکڑاؤ
پارکنسن کے مریضوں میں عضلات کا اکڑاؤ (Rigidity) ایک عام علامت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ عضلات سخت ہو جاتے ہیں، جس سے مریض کو حرکت کرنے میں تکلیف ہوتی ہے۔
4. توازن کا مسئلہ
پارکنسن کی بیماری کے مریضوں کو توازن کے مسائل کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ یہ علامت اس وقت نمایاں ہوتی ہے جب مریض کھڑا ہوتا ہے یا چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے گرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
5. چہرے کے تاثرات میں کمی
پارکنسن کے مریضوں کے چہروں پر اکثر کوئی تاثرات نظر نہیں آتے، جسے "مائیکروگریمیا" کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ چہرے کے عضلات اتنے سخت ہو جاتے ہیں کہ مریض کے جذبات یا تاثرات کم نظر آتے ہیں۔
6. نیند کے مسائل
پارکنسن کی بیماری میں نیند کی کمی یا نیند کے دوران بے چینی کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ مریض کو رات کے وقت سونے میں مشکلات پیش آتی ہیں، جس سے دن کے وقت تھکن اور کمزوری محسوس ہوتی ہے۔
پارکنسن کی بیماری کی وجوہات
پارکنسن کی بیماری کی اصلی وجہ ابھی تک مکمل طور پر معلوم نہیں ہو سکی ہے، لیکن اس کے کچھ ممکنہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے یہ بیماری ہوتی ہے۔
1. دماغی کیمیکلز کی کمی
پارکنسن کی بیماری میں دماغ کے ایک اہم کیمیکل "ڈوپامین" کی کمی ہوتی ہے۔ یہ کیمیکل دماغ کے مخصوص حصوں میں موجود ہوتا ہے اور جسم کی حرکتوں کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتا ہے۔ جب اس کی مقدار کم ہو جاتی ہے، تو حرکت میں سستی اور دیگر علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
2. جینیاتی عوامل
پارکنسن کی بیماری میں جینیاتی عوامل بھی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بعض لوگ جن کے خاندان میں اس بیماری کے مریض رہے ہیں، انہیں اس بیماری کے لاحق ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ تاہم، یہ بیماری جینیاتی طور پر وراثت میں منتقل ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔
3. ماحولیاتی عوامل
ماحولیاتی عوامل جیسے کہ کیمیائی مواد کے ساتھ رابطہ، جو کہ بعض پیشوں میں زیادہ ہوتا ہے، پارکنسن کی بیماری کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ زہر آلود مواد، خاص طور پر زرعی کیمیکلز، اس بیماری کے بڑھنے کی وجہ بن سکتے ہیں۔
پارکنسن کی بیماری کی تشخیص
پارکنسن کی بیماری کی تشخیص عموماً ایک نیورولوجسٹ (اعصابی ڈاکٹر) کرتا ہے۔ اس کے لیے ڈاکٹر مریض کی علامات، طبی تاریخ، اور جسمانی معائنے پر غور کرتے ہیں۔ عام طور پر پارکنسن کی بیماری کی تشخیص کے لیے کسی مخصوص ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن بعض اوقات ڈاکٹر مزید تحقیق کے لیے ایم آر آئی یا سی ٹی اسکین بھی تجویز کر سکتے ہیں۔
پارکنسن کا علاج
پارکنسن کی بیماری کا کوئی مکمل علاج نہیں ہے، لیکن مختلف علاج کے طریقے مریض کی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔
1. دوائیں
پارکنسن کی بیماری کے علاج میں دوائیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان دواؤں کا مقصد دماغ میں ڈوپامین کی کمی کو پورا کرنا اور علامات کو کم کرنا ہے۔ عام طور پر استعمال ہونے والی دوائیں درج ذیل ہیں:
- لیووڈوپا: یہ دوا ڈوپامین کی سطح کو بڑھاتی ہے اور حرکت میں سستی کو کم کرتی ہے۔
- ڈوپامین ایگونسٹس: یہ دوا ڈوپامین کی طرح کام کرتی ہے اور دماغ میں اس کے اثرات کو بڑھاتی ہے۔
- کاربائیڈوپا: یہ دوا لیووڈوپا کے اثرات کو بڑھاتی ہے اور اس کے سائیڈ ایفیکٹس کو کم کرتی ہے۔
2. تھراپی
پارکنسن کی بیماری میں مختلف تھراپیز بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں:
- فزیو تھراپی: جسمانی ورزشیں اور توازن کی مشقیں مریض کی حرکت اور ہم آہنگی کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہیں۔
- آکیوپیشنل تھراپی: یہ تھراپی مریض کو روزمرہ کی سرگرمیوں کو آسان بنانے میں مدد دیتی ہے۔
- سپچ تھراپی: بولنے یا کھانے میں مشکلات کے لیے یہ تھراپی فائدہ مند ہو سکتی ہے۔
3. ڈیپ برین سٹیمولیشن
جب دوائیں اور تھراپی موثر نہ ہوں، تو ڈیپ برین سٹیمولیشن (DBS) کا طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس میں دماغ کے مخصوص حصوں میں ایک چھوٹی سی ڈیوائس (پیسی میکر کی طرح) لگائی جاتی ہے جو غیر معمولی برقی سرگرمی کو کنٹرول کرتی ہے۔
4. سرجری
اگر دیگر علاج اثر نہ کریں تو پارکنسن کی بیماری کے علاج کے لیے سرجری کی ضرورت پڑ سکتی ہے، جیسے کہ تھائمسیکٹومی (تھائمس کے غدود کو ہٹانا) یا دیگر سرجیکل طریقے۔
پارکنسن اور ڈپریشن
پارکنسن کی بیماری کے مریضوں میں ڈپریشن کی شکایت بھی عام ہے۔ یہ بیماری مریض کی روزمرہ کی زندگی کو بہت متاثر کرتی ہے، جس کے باعث ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا سامنا ہو سکتا ہے۔ پارکنسن میں ڈپریشن کے علاج کے لیے دوائیں اور نفسیاتی تھراپی تجویز کی جا سکتی ہے۔
نتیجہ
پارکنسن کی بیماری ایک پیچیدہ اور طویل المدتی حالت ہے، لیکن جدید علاج اور تھراپی کے ذریعے اس کی علامات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ مریض کی زندگی کے معیار کو بڑھانے کے لیے دواؤں کے علاوہ فزیو تھراپی، تھراپیز، اور جدید تکنیکوں جیسے ڈیپ برین سٹیمولیشن کی مدد لی جا سکتی ہے۔ اگر آپ کو پارکنسن کی بیماری کی علامات نظر آئیں تو فوراً کسی نیورولوجسٹ سے مشورہ کریں تاکہ صحیح تشخیص اور علاج ممکن ہو سکے۔
براہ کرم انسٹا کیئر کے ذریعے لاہور، کراچی، اسلام آباد اور پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں بہترین نیورولوجسٹ کے ساتھ ملاقات کا وقت بُک کریں، یا اپنی بیماری کے لیے تصدیق شدہ ڈاکٹر تلاش کرنے کے لیے ہماری ہیلپ لائن 03171777509 پر کال کریں